اختر شیرانی کا یوم پیدائش

اردو کے مقبول ترین شاعروں میں شامل ، شدید رومانی شاعری کے لئے مشہور

مختصر تعارف

تخلص :’اختر

اصلی نام :محمد داؤد خاں

پیدائش : ۰۴، مئی، ۱۹۰۵ | ٹونک، راجستھان، ہندوستان

وفات : ۰۹ ستمبر ۱۹۴۸ | لاہور، پاکستان

اختر شیرانی کا اصل نام داؤد خاں تھا ۔وہ ۰۴ مئی ۱۹۰۵ء کو ہندوستان کی سابق ریاست ٹونک میں پیدا ہوئے۔ وہ جیّد عالم اور محقق حافظ محمود شیرانی کے اکلوتے بیٹے تھے۔ لہٰذا دینی تعلیم کے لئے لائق حفاظ اور اتالیق مقرر کئے گئے اور مروجہ تعلیم سے بہرہ ور کرنے کے لئے باپ نے خود استاد کی ذمہ داری نبھائی اورصابر علی شاکر کی خدمات بھی حاصل کیں۔ یہی نہیں بیٹے کی جسمانی نشو نما کے لئے پہلوان عبد القیوم خان کو ملازم رکھا۔ داؤد خاں نے کشتی اورپہلوانی کے ساتھ ساتھ لکڑی چلانے کا ہنربھی سیکھا۔ حافظ محمود شیرانی بیٹے کو اپنی ہی طرح عالم، فاضل اور محقق بنانا چاہتے تھے۔ لیکن قدرت نے انہیں کسی دوسرے ہی کام کے لئے پیدا کیا تھا۔ مزاج لڑکپن سے ہی عاشقانہ تھا۔ انھوں نےکم عمری سے ہی شاعری شروع کر دی تھی اور چوری چھپے صابر علی شاکر سے مشورۂ سخن کرتے تھے۔ جس وقت اختر شیرانی کی عمر تقریباً ۱۶ سال تھی نواب ٹونک کے خلاف اک شورش برپا ہوئی جس کے نتیجہ میں نواب نے بہت سے لوگوں کو ریاست بدر کیا ان ہی میں ناکردہ گناہ حافظ محمود شیرانی تھے۔وہ مجبوراً لاہور چلے گئے جہاں اختر شیرانی نے تعلیم جاری رکھتے ہوئے اورینٹل کالج سے منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحانات پاس کئے اور ساتھ ہی شاعری میں علامہ تاجور نجیب آبادی کی شاگردی اختیار کر لی۔ تعلیم سے فارغ ہو کر وہ صحافت کے چکر میں پڑ گئے اور یکے بعد دیگرے کئی رسالے نکالے۔ملازمت انھوں نے کبھی نہیں کی۔ ان کی تمام شاہ خرچیاں باپ کے ذمہ تھیں۔ قیام لاہور کے ابتدائی زمانہ میں ہی اختر شیرانی پر عشق نے حملہ کیا۔ شاعری ہی کیا کم تھی وہ شراب بھی پینے لگے۔ان خبروں سے حافظ محمودد شیرانی کو شدید صدمہ پہنچا۔ انھوں نے ان کے اخراجات تو بند نہیں کئے لیکن حکم دیا کہ وہ کبھی ان کے سامنے نہ آئیں۔ ۱۹۴۶ء میں باپ کی موت کے بعد تمام ذمہ داریاں اختر کے سر پر آ گئیں جن کا انہیں کوئی تجربہ نہیں تھا ۔اب ان کی شراب نوشی حد درجہ بڑھ گئی۔پھر ۱۹۴۷ میں تقسیم ملک نے ان کے لئے مزید پریشانیاں پیدا کر دیں۔ وہ لاہور اپنے دیرینہ اور مخلص دوست نیّر واسطی کے پاس چلے گئے۔ تب تک بلا نوشی نے ان کے جگر اور پھیپھڑوں کو تباہ کر دیا تھا۔۰۹ ستمبر ۱۹۴۸ء کو اسی حالت میں لاہور میں انتقال ہوا اور میانی صاحب میں دفن ہوئے.

اختر شیرانی کا یوم پیدائش پر ان کے کچھ منتخب اشعار بطور خراج عقیدت

انتخاب و پیشکش….اختر آرزو

بھلا بیٹھے ہو ہم کو آج لیکن یہ سمجھ لینا

بہت پچھتاؤ گے جس وقت ہم کل یاد آئیں گے

۔۔۔۔۔۔۔

آرزو وصل کی رکھتی ہے پریشاں کیا کیا

کیا بتاؤں کہ میرے دل میں ہے ارماں کیا کیا

۔۔۔۔۔۔۔

کانٹوں سے دل لگاؤ جو تا عمر ساتھ دیں

پھولوں کا کیا جو سانس کی گرمی نہ سہ سکیں

۔۔۔۔۔۔۔

خفا ہیں پھر بھی آ کر چھیڑ جاتے ہیں تصور میں

ہمارے حال پر کچھ مہربانی اب بھی ہوتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔

مدتیں ہو گئیں بچھڑے ہوئے تم سے لیکن

آج تک دل سے مرے یاد تمہاری نہ گئی

۔۔۔۔۔۔۔

چمن میں رہنے والوں سے تو ہم صحرا نشیں اچھے

بہار آ کے چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

۔۔۔۔۔۔۔

کسی مغرور کے آگے ہمارا سر نہیں جھکتا

فقیری میں بھی اخترؔ غیرت شاہانہ رکھتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔

اٹھتے نہیں ہیں اب تو دعا کے لیے بھی ہاتھ

کس درجہ ناامید ہیں پروردگار سے

۔۔۔۔۔۔۔

غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ

یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے

۔۔۔۔۔۔۔

کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں

اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں

۔۔۔۔۔۔۔

اک وہ کہ آرزؤں پہ جیتے ہیں عمر بھر

اک ہم کہ ہیں ابھی سے پشیمان آرزو

۔۔۔۔۔۔۔

یہ جوانی یہ گھٹائیں یہ ہوائیں یہ بہار

حضرت اختر ابھی سے پارسا کیوں ہو گئے

۔۔۔۔۔۔۔

رہائی کی خبر کس نے اڑائی صحن گلشن میں

اسیران قفس سے تو صبا کچھ اور کہتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔

مجھے دونوں جہاں میں ایک وہ مل جائیں گر اختر

تو اپنی حسرتوں کو بے نیاز دو جہاں کر لوں.

منقول

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *