,

آج مرزا غالبؔ کے چہیتے شاگرد میر مہدی حسین مجروح کی برسی ہے۔

میر مہدی حسین ۔ ولادت 1833ء لگ بھگ دہلی ۔ غالب کے عزیز شاگرد ، وفات 15 مئی 1903ء دہلی

میر مہدی حسین مجروح سادات نجیب الطرفین کے ایک شریف اور عالی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کے آباؤ اجداد ایران سے اس وقت ہندوستان آۓ جب مغلیہ سلطنت کا آفتاب صدیوں کی ضوفشانی کے بعد غروب کی ساعتوں میں تھا۔ یہ لوگ شاعر اور اہل علم تھے۔ مجروحؔ کے والد میر حسین فگار کے دادا یا نانا اس خاندان کے پہلے فرد ہیں جن کا نام ان کی شاعری کی بدولت اردو شعراء کے تذکروں میں باقی رہ گیا ہے ۔ وہ شاہ عالم بادشاہ کے درباری شاعر تھے اور فقیرؔ تخلص کرتے تھے ۔

ان کے والد فگارؔ بہت بڑے عالم اور نزاکت آفریں شاعر تھے ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں

تیرے دیوانے کو سودا ہے روز اک آن نیا

چاہیے بہرِ جنوں روز بیاباں نیا

نہ تو دنیا کی تمنا ہے ، نہ دیں کی خواہش

ہے ہوس ہاۓ جہاں سے مرا ارماں نیا

قید کچھ اس پہ نہیں عصرِ گزشتہ کی فگار

اس سخن کا ہے ہر اک وقت میں فیضان نیا

بے طلب گھر میں ترے وہ جو چلے آتے تھے

اس زمانے کو فگارؔ اب تو کر یاد ، گیا

یارانِ رفتہ کو نہ کروں کس طرح سے یاد آنکھوں کے سامنے سے وہ دفتر الٹ گیا

 

 منتخب کلام
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ہمسر جہاں میں کب ہے رسول کریم کا
 ثانی کبھی ملا نہیں در یتیم کا
 وہ گلشن وقار کہ جس کے درخت پر
 ہے آشیانہ بلبل سدرہ مقیم کا
 وہ شاہ عدل دوست کہ یہ بندوبست شرع
 ہے اک نمونہ آپ کی رائے سلیم کا
 وہ ہادی الطریق کہ جس کے کلام کا
 ہر حرف رہنما ہے رہ مستقیم کا
 حاکم وہ اس جہان میں ہر جن و انس پر
 قاسم وہ دین میں ہے نعیم و جحیم کا
 شائق کلیم تھا سو رخ پاک شاہ نے
 جلوہ دکھا دیا اسے حسن قدیم کا
 فرش رہ حضور ہو اس کی یہ چاہ ہے
 رتبہ بلند کیوں نہ ہو عرش عظیم کا
 اکھڑی سی کچھ ہوا نفس عیسوی کی ہے
 یثرب سے آ گیا کوئی جھونکا نسیم کا
 آؤ در حضور پہ اے طالبان حق
 رستہ دکھا رہا ہوں رہ مستقیم کا
 اب فکر کیا شفاعت و رحمت ہے ایکجاہ
 نائب بھی ہے کریم خدائے رحیم کا
 حضرت کے واسطے سے نہ کی التجائے دید
 مقصود کس طرح سے بر آتا کلیم کا
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 غیروں کو بھلا سمجھے، اور مجھ کو برا جانا
 سمجھے بھی تو کیا سمجھے، جانا بھی تو کیا جانا
 اک عمر کے دُکھ پائے، سوتے ہیں فراغت سے
 اے غلغلۂ محشر، ہم کو نہ جگا جانا
 مانگوں تو سہی بوسہ پر کیا ہے علاج اس کا
 یاں ہونٹ کا ہل جانا واں بات کا پا جانا
 گو عمر بسر اس کی تحقیق میں کی تو بھی
 ماہیّتِ اصلی کو اپنی نہ ذرا جانا
 کیا یار کی بد خوئی، کیا غیر کی بد خواہی
 سرمایۂ صد آفت ہے دل ہی کا آ جانا
 کچھ عرضِ تمنّا میں شکوہ نہ ستم کا تھا
 میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا
 اک شب نہ اُسے لائے، کچھ رنگ نہ دکھلائے
 اک شور قیامت ہی نالوں نے اُٹھا جانا
 چلمن کا الٹ جانا، ظاہر کا بہانہ ہے
 ان کو تو بہر صورت اک جلوہ دکھا جانا
 ہے حق بطرف اسکے، چاہے سَو ستم کر لو
 اس نے دلِ عاشق کو مجبورِ وفا جانا
 انجام ہوا اپنا آغازِ محبّت میں
 اس شغل کو جاں فرسا ایسا تو نہ تھا جانا
 مجروح ہوئے مائل کس آفتِ دوراں پر
 اے حضرتِ من تم نے، دل بھی نہ لگا جانا
 ----
 کوئی آسماں کیا سوا ہو گیا
 کہ افزوں نزول بلا ہو گیا
 وہ جاتے ہیں دامن بچائے ہوئے
 تجھے جرات شوق کیا ہو گیا
 ڈرو نالہ حسرت آلود سے
 غضب ہو گیا گر رسا ہو گیا
 نہ ہلنے دیا مہر صیاد نے
 رہا قید میں گو رہا ہو گیا
 کبھی میرے دل سے نکلتا نہیں
 یہ غم تو مزا وصل کا ہو گیا
 ہوئے بال و پر بند اب ہمکو کیا
 اگر عقدہ دام وا ہو گیا
 بڑھے اور بھی بخت کی تیرگی
 اگر سر پر ظل ہما ہو گیا
 لگا ہاتھ میں کس کا شور آب اشک
 جو پھیکا سا رنگ حنا ہو گیا
 کہا میں نے ایجاں تو بولے چہ خوش
 کہو کب سے میں بیوفا ہو گیا
 وہ آئیں یہاں اک نئی بات ہے
 تجھے بخت بد آج کیا ہو گیا
 کیا حال دوری جو ان کو رقم
 تو ہر حرف خط کا جدا ہو گیا
 کھٹکتا ہے پہلو میں دن رات دل
 یہ پیکاں ترے تیر کا ہو گیا
 کھلا جب سیہ نامہ میرا تو پھر
 شب تار روز جزا ہو گیا
 ہیں اس تند خو سے یہ گستاخیاں
 تھمو تم کو مجروح کیا ہو گیا
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 موسٰی نہ غش میں آئیو ، اک بار دیکھنا
 آساں نہیں ہے یار کا دیدار دیکھنا
 محفل طرازیاں وہ کہاں،اب تو کام ہے
 گھر میں پڑے ہوۓ در و دیوار دیکھنا
 ساقی کی چشمِ مست کا گر دور ہے یہی
 زاہد کو آج کل ہی میں مے خوار دیکھنا
 ہیں بعدِ مرگ بھی وہی آنکھیں کھلی ہوئی
 عاشق کی اپنے حسرتِ دیدار دیکھنا
 گر چشمِ تر کی ہیں یہی خوننابہ باریاں
 اس گھر ہی میں لگا گل و گلزار دیکھنا
 ہے کس سے تانک جھانک، کہ خالی نہیں ہے یہ
 سوراخِ در سے آپ کا ہر بار دیکھنا
 چندے یونہی ہے عشقِ زلیخا کی گر کشش
 یوسفؑ کو آج کل سرِ بازار دیکھنا
 ہو قہر یا کہ مہر ، کوئی یہ بھی ڈھنگ ہے
 سو بار منہ کو پھیرنا ، سو بار دیکھنا
 قطعہ
 میں اپنی جاں پہ کھیل کے کل قتل گاہ میں
 کہنے لگا کہ قاتلِ خوں خوار دیکھنا
 کیا قتل کرنے میں یہی انصاف شرط ہے
 بے جرم دیکھنا نہ گنہگار دیکھنا؟
 کہنے لگا یہ سن کے وہ شوخِ ستیزہ کار
 آ جاؤ تم بھی ، ہو جو کوئی وار دیکھنا
 اس امر کو تو اس نے کیا اس قدر محال
 آساں ہے مرگ اور ہے دشوار دیکھنا
 ظاہر ہے یہ کہ جاذبِ شبنم ہے آفتاب
 کافی ہمیں ہے یار کا اک بار دیکھنا
 میں ہوں جو بے قرار تو معذور جانیے
 آساں نہیں ہے دل کا گرفتار دیکھنا
 سر رکھ کے اس کے زانو پہ رویا وہ ماہ وش
 یارو عدو کے طالعِ بیدار دیکھنا
 شاید ہمارے دل کے اڑانے کی فکر ہے
 خالی نہیں ہے ان کا یہ ہر بار دیکھنا
 برگِ گیاہ ہو نہیں سکتا حریفِ برق
 مجروحؔ کی طرف نہ کہیں یار دیکھنا
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 المرسل :-: ابوالحسن علی ندوی(بھٹکلی) (بشکریہ اردو کلاسک)
   

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *