ملک محمد جائیسی امیٹھی (اترپردیش) کے قریب جائیس کے رہنے والے تھے۔ اسی وجہ سے وہ جائیسی کہلائے۔ وہ اپنے زمانے کے مستند اور پہونچے ہوئے فقیر مانے جاتے تھے۔ انہوں نے سید اشرف اور شیخ برہان کا تذکرہ اپنے مرشدوں کی حیثیت سے کیا ہے۔
جائسی صوفی راہ محبت شعبہ کے عظیم ترین شاعر تصور کیے جاتے ہیں اور ان کا پدماوت عشقیہ داستان گوئی کی بہترین مثال ہے۔ ہندوستانی لوک کتھا پر مبنی اس عشقیہ داستان میں سنہل دیس کی راج کماری پدماوتی اور چتوڑ کے راجہ رتن سین کی داستان محبت مذکور ہے۔ جائسی نے اس میں دیومالائی کہانی کا بیان اس طرح کیا ہے کہ حقیقت کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اس بیانیہ میں عمیق اسرار و رموز بھی ملتے ہیں۔ محبت کا ہہ انسانی پہلوصرف انسانوں کے لیے باعث تحریک ہے۔
فارسی کی مثنوی اسلوب میں تخلیق شدہ اس نظم کی کتھا ابواب میں منقسم نہیں ہے بلکہ مسلسل ہے۔ کئی جگہوں پردوہا چوپائی کا اسلوب اپنایا گیا ہے۔ زبان ان کی ٹھیٹھ اودھی ہے اور اسلوب شعرنہابت سنجیدہ۔ جائسی کی نظم کی بنیادعوامی زندگی کا وسیع تر تجربہ ہے۔ ان کی استعمال کردہ تشبیہات، استعارے، کہاوتيں اور محاورے یہاں تک کہ پوری شعری زبان پر عوامی ثقافت کا اثر ہے، جو ان کی تخلیقات کو نیا مفہوم اور حسن عطا کرتا ہے۔
پدماوت، اکھراوٹ اور آخری کلام جائسی کی معروف تخلیقات ہیں جن میں سے پدماوت ان کی شہرت کا سبب بنا۔
مقامی عقیدے کے مطابق جائسی کا بیٹا ایک حادثے میں گھر کے نیچےدب کر جاں بحق ہوگیا، جس کی وجہ سے جائسی دنیا سے مایوس ہوگئے اور کچھ ہی دن میں گھر چھوڑ کر درویش کی زندگی اختیار کرلی۔ امیٹھی کے راجہ رام سنگھ کو ان سے عقیدت تھی ۔ اپنے آخری دنوں میں، جائسی امیٹھی سے کچھ دور ایک گھنے جنگل میں بودوباش اختیار کرلی تھی۔ لوگ کہتے ہیں کہ جب آخری وقت قریب آیا تو انہوں نے امیٹھی کے بادشاہ سے کہا کہ میں ایک شکاری کے تیر سے مروں گا ، جس پر بادشاہ نے آس پاس کے جنگلات میں شکار کرنے کی ممانعت کروادی۔ جائسی جس جنگل میں رہتے تھے ، وہاں ایک شکاری نے ایک بڑا شیر دیکھا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے اسے گولی مار دی۔ جب وہ قریب گیا تو دیکھا کہ شیر کی جگہ پر جائسی کی روح پرواز کرگئی ہے۔
Leave a Reply