مالک اشتر
پروین شاکر اگر زندہ ہوتی تو آج اپنی سالگرہ منا رہی ہوتی۔ اس کی عمر اڑسٹھ برس ہو چکی ہوتی اور شائد اس کے بالوں کا بیشتر حصہ چاندی جیسا ہو گیا ہوتا۔ وہ ایک باوقار اور بہت خوبصورت خاتون ہوتی جسے دیکھ کر اس کے مجھ ایسے ‘نوجوان’ پروانے جل جل اٹھا کرتے۔ شائد اس کا فیس بک پر کوئی اکاؤنٹ ہوتا جس میں آئے روز اس کے شائقین کی فرینڈ رکویسٹ آیا کرتیں اور وہ ان میں سے چند ایک کو ایڈ کر لیتی اور باقی سارے قبولیت کے دن کا انتظار کیا کرتے۔زیادہ امکان یہ ہے کہ اس کا کوئی فیس بک پیج ہوتا جس پر لاکھوں لوگ اسے فالو کرتے۔ وہ سیول سرونٹ تھی لیکن اب تک کسی اعلی عہدے سے سبکدوش ہو چکی ہوتی۔ اب اس کا وقت سمیناروں اور مشاعروں میں بسر ہوا کرتا۔ وہ اپنے مخصوص رکھ رکھاؤ کے ساتھ مشاعرے کے اسٹیج پر باوقار ڈھنگ سے بیٹھا کرتی اور صف سامعین کی ہر نگاہ کا مرکز قرار پاتی۔ وہ جب کلام سنانے آتی تو تحت اللفظ میں بالکل سیدھے سپاٹ انداز میں شعر پڑھتی اور مشاعرہ لوٹ لیا کرتی۔ سامعین کی داد و تحسین کے شور میں وہ اسی سنجیدہ چہرے سے شعر پڑھتی رہتی۔ وہ اسٹیج پر شائد ہی کبھی مسکراتی۔ جب داد کی آواز بلند ہوتی تو وہ اپنا بایاں ہاتھ ماتھے تک لے جاکر آداب کرتی۔ وہ مشاعروں کی پارٹی بندی اور سیاست میں بالکل نہیں پڑا کرتی۔ وہ زیادہ تر وقت پڑھنے میں گزارا کرتی اور اس کی الماری میں اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب بھی بھرا رہا کرتا۔ اب وہ اپنے پوتے کے ساتھ کھیلا کرتی اور اس پر نظم کہتی۔ اس نے اپنا مجموعہ بیٹے مراد کے نام منسوب کیا تھا اب اگر وہ ہوتی اور کوئی مجموعہ چھپتا تو شائد اس کا انتساب مراد کے بیٹے کے نام ہوتا۔
وہ اپنی پوتی کی سب سے اچھی دوست ہوتی۔ وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر پڑھا کرتی کہ اس کے دور کی لڑکی آج کے دور میں کتنی تبدیل ہوئی ہے؟۔ وہ پوتی سے خوب باتیں کیا کرتی گویا کرید کرید کر اس کے خیالات جاننا چاہ رہی ہو، پھر وہ ان خیالات کو نظم کرتی اور لڑکیوں کی آواز بنتی۔ وہ غزلوں میں زبردست رومانی رنگ بکھیرا کرتی لیکن سنجیدہ نظمیں بھی پابندی سے لکھا کرتی۔ وہ جدید فکر کی ترجمانی کیا کرتی لیکن روایات کا رنگ دھندلا نہ پڑنے دیا کرتی۔ عاشور کے دن کسی چینل پر سر کو کالی چادر سے ڈھانپے وہ کوئی سلام پڑھتی نظر آ جایا کرتی۔ وہ اس دور میں وومن امپاورمنٹ کی بہت بلند آواز ہوتی۔ وہ دنیا بھر میں بلائی جاتی اور ایک عالم اس کا دیوانہ ہوتا۔ وہ نعرے بازی کا لہجہ اپنانے کے بجائے خواتین کے فطری لہجے میں ایسی ترجمانی کیا کرتی کہ بات سیدھے دلوں پر جاکر لگا کرتی۔ اگر وہ زندہ ہوتی تو میں اسے بھارت سے ایک خط بھیجتا۔ میں اس سے فرمائش کرتا کہ وہ اپنے آٹوگراف کے ساتھ اپنا مجموعہ کلام مجھے بھیجے۔ مجموعہ کلام تو میں بازار سے بھی خرید سکتا تھا لیکن اصل لالچ اس کی تحریر کا ہوتا۔ زیادہ امکان یہی تھا کہ اس کے ہزاروں شائقین کے خطوں کے جنگل میں میرا نامہ بھی گم ہو رہتا۔ ہاں اگر قسمت سے خط اس تک پہنچ جاتا اور وہ مجھے دستخط کرکے اپنی کتاب بھجواتی تو میں پہروں اس کی تحریر کو نکال کر اسے تکا کرتا۔ یہ سب ہو سکتا تھا لیکن واقعہ یہ ہے کہ اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔
Leave a Reply