ڈاکٹر شمیم احمد، ایم ایل اے نرکٹیا 12 اسمبلی حلقہ، مشرقی چمپارن: ایک مثالی رھنما

جس طرح مشرق سے طلوع ہونے والے سورج کے تعارف کی ضرورت نہیں،  رات کی تاریکی میں آسمان کی بلندی پر چمکتے ستاروں کے تعارف کی ضرورت نہیں،جس طرح سمندر کی گہرائی و گیرائی کے تعارف کی ضرورت نہیں اسی طرح کچھ  شخصیتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں تعارف کی قطعاً ضرورت نہیں پڑتی  چہرہ کھلی کتاب ہے،عنوان جو بھی دو، جس رخ سے بھی پڑھو گے انہیں جان جاؤگے۔

چھوڑادانو ، بنکٹوا اور بنجریا بلاک پر مشتمل ١٢ نرکٹیا اسمبلی حلقہ کے ایم ، ایل ، اے عزت مآب ڈاکٹر شمیم احمد صاحب کی ولادت باسعادت ٦جنوری ١٩٧٢کو ایک غیرمتمدن علاقہ خیروا درگاہ میں ہوئی۔ ان کے والدِ محترم جناب عابد حسین صاحب مرحوم پیشے سے ایک ڈاکٹر تھے۔ درد کا احساس ، تکالیف کا ازالہ ڈاکٹر صاحب مدظلہ العالی کو ورثے میں ملا ہے۔ والد ایک تعلیم یافتہ، ذی ثروت شخص تھے۔ اور علاقے کے چنندہ لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ علاقہ کی پسماندگی اور ناخواندگی کا انہیں شدید احساس تھا۔ اس احساس نے ان کو چین سے نہ بیٹھنے دیا اور بچوں کی تعلیم و تربیت پر ان کی توجہ مبذول کرائی۔

ڈاکٹر شمیم احمد صاحب بچپن سے ہی بڑے ہی ملنسار، غمگسار اورہمدرد انسان ہیں اور شرافت تو گویا ان کی گھٹی میں پلی ہو۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی۔ بی، ایس،سی کی ڈگری کے ساتھ بی اے، ایم ایس کی ڈگری بھی حاصل کی۔

زمانۂ طالب علمی سے ہی ڈاکٹر صاحب کا ہدف تھا یہاں تک کہ وہ خود بھی بتاتے ہیں جب دیہات کے معصوم لوگوں اور بیمار لوگوں کو علاج کے لئے در در بھٹکتے دیکھتے تھے تو انہیں بڑی تکلیف ہوتی تھی، رفتہ رفتہ یہ تکلیف کڑھن بن گئی اور بالآخر ڈاکٹر صاحب نے یہ فیصلہ کر ہی لیا کہ دیہات میں بھی ایک ایسے اسپتال کی بنیاد رکھی جائے جہاں ہر طرح کی سہولیات موجود ہوں تاکہ دیہات کے لوگوں کو در در بھٹکنا نہ پڑے اور قوم کا یہ مسیحا پہلی بار مرض کا مداوا کرنے کے لئے عوام کے درمیان آیا۔اور اسپتال کے لئے اپنا پشتینی گاؤں خیروا( درگاہ) کا انتخاب کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ خیروا بازار کو جو عالمی شہرت ملی اس کا وافر حصہ ڈاکٹر شمیم احمد صاحب کے حصے میں جاتا ہے۔

ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے لوگوں کے درمیان کام کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے قطعی کسی مریض کو سخت لہجے میں نہیں بولا۔ قدرت جسے نوازتی ہے اسے مکمل طور پر نواز دیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک خوش باش، خوش اخلاق اور خوش گلو انسان تو ہیں ہی ساتھ ہی ایک باتمکین اور سنجیدہ مزاج شخصیت کے حامل بھی ہیں۔ چہرے پر کھلنے والی ہلکی مسکان مریضوں کے لئے دوا سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔ ١٩٩٩سے٢٠٠٦ءتک ڈاکٹر صاحب ہاسپیٹل کے پلیٹ فارم سے متعدد کارہاۓ نمایاں انجام دئیے، مثلاً کسی مریض کے لئے آپریشن ایک بڑی پریشانی کا سبب تھا لیکن ہاسپیٹل بننے کی وجہ سے بآسانی آپریشن ہونے لگا ۔ نہ رہنے میں پریشانی نہ کھانے میں پریشانی، مفت میں علاج، میرے خیال سے ڈاکٹر صاحب نے سیکڑوں ایسے مریضوں کو آپریٹ کیۓ ہونگے جن سے ان کو ایک روپیہ بھی نہیں ملا ہوگا لیکن چہرے کی بشاشت میں فرق نہیں آیا اور نہ ہی کبھی پیشانی پر بل آۓ۔ اور سب سے اہم بات اور وصف امتیاز یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے کبھی بھی کسی بھی مریض کے درمیان امتیاز  نہیں سمجھا۔ ہندو مسلم کے بھید بھاؤ کو قریب سے بھی نہیں گذرنے دیا۔ اور ڈاکٹر ہوتے ہوئے بھی کئی مسجدوں کے ائمہ اور مؤذنین کی تنخواہ کی ذمےداری اٹھائ۔ اور مدرسوں اور مسجدوں کی تعمیری کام میں شرکت کا شرف حاصل کیا۔

علاج ومعالجہ سے تعلق کے سبب علاقائی خبریں اور حالات آپ کو معلوم ہوتے رہتے تھے، سڑکوں کی پریشانی ، بجلی کی پریشانی ایم ایلیز اور ایم پیز کے کالے کارناموں کا کالا چٹھا سب آپ کے سامنے کھولے جاتے، جب ڈاکٹر صاحب کو اطمینان ہو گیا کہ اب دیہات کے عوام علاج ومعالجہ کے لئے پریشانی نہیں اٹھا رہے ہیں، اسپتال کی سہولیات اب ہر جگہ مہیا ہو گئی ہیں تو ڈاکٹر صاحب نے یہ تہیہ کیا کہ اب سیاست کو بھی اپنی محنت کا میدان منتخب کیا جائے اور آپ پہلی بار ٢٠٠٦ء کے اسمبلی انتخاب میں 12 نرکٹیا اسمبلی حلقہ سے آزاد امیدوار کے طور پر آۓ۔ لیکن کامیابی نہیں ملی لیکن ہارکر جیتنے والے کو ہی بازی گر کہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ہار کر بھی نرکٹیا اسمبلی حلقہ کے لوگوں کا دل جیت لیا۔ اور دوسری بار ٢٠١٥ء میں اسمبلی انتخاب میں آۓ اور کامیابی کا سہرا نرکٹیا اسمبلی کے عوام نے ڈاکٹر صاحب کے سر باندھ دیا۔اور اس وقت سے لے کر اب تک ایم ایل اے کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن یہ کہوں تو بجا ہے کہ عہدہ ضرور بدلا لیکن انسان نہیں بدلا۔ کہتے ہیں کہ جس کو دردسر کبھی ہوا ہی نہ ہو وہ دردسر کیا جانے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے اسمبلی حلقہ کے تینوں بلاکوں کا بغور معائنہ کیا اور سب سے پچھڑے اور قدرتی آفات سے دوچار بلاک بنجریا پر خاص توجہ دی۔اتنی ترقی کے باوجود اب تک وہاں نہ بجلی تھی اور نہ ہی آمدورفت کی سہولتیں۔ ڈاکٹر صاحب کی کوششوں اور محنتوں کا نتیجہ ہے کہ آج بجلی کے قمقموں سے سارا علاقہ جگمگاتا رہتا ہے۔ اور ایک گاؤں کو دوسرے گاؤں سے جوڑنے والی سڑکیں بھی بن گیئں ہیں۔ اور مستقل طور پر موتہاری سے چیلاہاں ، سسونیا ، جٹوا ، جونیروا ہوتے ہوئے بیلا بلاس پور تک ہائی وے پاس کرانے کا کارنامہ ڈاکٹر صاحب نے ہی انجام دیا ہے۔

ایم ایل اے کے طور پر کام تو بہت سارے کیۓ جیسے کئی جگہوں پر مسافروں کےلے شیڈ بنواۓ، پل تعمیر کرایا ، سڑکیں بنائیں گئیں، راشن جو ہر مہینے نہیں ملتا تھا ڈاکٹر صاحب کی محنت کا صلہ ہے کہ ہر مہینے راشن مل رہا ہے۔سابق ایم ایلیز اور ایم پیز کے درینہ روایت کو توڑا اور مسلسل اپنے اسمبلی حلقہ کے تمام گاؤں میں گھومتے رہے اور غریب * نادارکمزور۔* لوگوں سے مل کر ان کا غم غلط کیا اور ان کے دکھ بانٹے سیلاب کے زد میں آے بلاک بنجریا کے سیلاب متاثرین کے مابین٢٠٠٠ہزار کا اسپیشل پیکیز تقسیم کرایا یہ وہ کارنامہ ہےجو اب سے قبل کسی ایم  ایل اے نے نہیں کیا وہ تو بس ووٹ کے کیلےآےء اور پھر جیتنے کے بعد نافرمان اولاد کی طرح پلٹ کر بھی نہیں دیکھے بہت سارے کام تھے جو ادھورے رہ گئے وجہ یہ ہے کہ سرکار اپوزیشن کی تھی۔ اب ضرورت ہے کہ ہم ایک بار پھر اس درد کے مسیحا کو اپنی آنکھوں کا تارا اور اپنے دل کی دھڑکن بنا لیں اور 12 نرکٹیا  اسمبلی حلقہ سے زیادہ سے زیادہ ووٹ سے کامیاب بنائیں۔

        ان سے اوپر کوئی نہیں،

        آپ سے بہتر کوئی نہیں

Written by Mahtab Alam

Mahtab Alam
Mahtab Alam

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *